مہاکنبھ:مسلم بینڈکی دھنوں پرناچتے ناگاسادھو

ی اور ہندومسلم اتحاد کے ایسے نمونے دکھائی پڑتے ہیں جواصلی ہندوستانی سماجی بندھن کی علامت ہیں۔ بانکے بہاری تیرے موٹے موٹے نین کی دھن پر سادھوسنتوں کو ناچتے ہوئے دیکھاجاسکتا ہے،وہ بے خود ہوکر رقص کر رہے ہیں مگر بیندبجانے والے تمام مسلمان ہیں اور اس بینڈکانام الطاف بینڈ ہے جس کے مالک شاہ رخ خان نام کا ایک مسلمان ہے۔

سادھووں کو اس سے مطلب نہیں کہ الطاف بینڈ کا مالک کون ہے؟ اور بجانے والوں کا دھرم کیا ہے؟یہاں کے جٹادھاری سادھوبھجنوں کے دھن پررقص کرتے ہیں اور جب دھن بند ہوتی ہے تو بینڈ بجانے والوں کو پھول مالائیں پیش کی جاتی ہیں نیز انھیں پیسے بھی دیئے جاتے ہیں۔

حالانکہ الطاف بینڈ ہریدوار کا تنہا مسلم بینڈ نہیں ہے۔ یہاں دوسرے بہت سے بینڈ ہیں جن کے مالک مسلمان ہیں اور بجانے والے بھی مسلمان ہیں۔ ایسے بینڈپارٹی والے بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ مہنت رشیشورانند کہتے ہیں ، ‘کمبھ میلے میں مسلم بینڈ آتے رہے ہیں۔ وہ ایسے گیت بجاتے ہیں جو ہمارے دلوں کو چھوتے ہیں۔ بھگوان سب کا ہے۔ یہ بینڈ کمبھ کی ثقافت میں حصہ داررہے ہیں۔

الطاف بینڈ کی 100 سالہ تاریخ  ہے۔ عبد الرحمن اس بینڈ سے وابستہ چوتھی نسل سے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں ، ‘ہمارا بینڈ ہندوستان کے قدیم ترین بینڈوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے ساتھ 70 افراد ہیں۔ ہمارے بینڈ کے بانی ، محمد الطاف نے ہندو بھجن گانے کی روایت کا آغاز کیا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہم نے دفاعی فنڈ کے لئے 1 لاکھ روپے دیئے تھے۔ ہمیں اس پرخر ہے۔ اسی طرح کے ایک اور بینڈ ملاپ بینڈ کے ماہر فہیم سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں کبھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے کہا ، ‘ہم نہ ہندو ہیں اور نہ ہی مسلمان۔ ہم فنکار ہیں۔ ہم اسے کامیاب بنانے کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔ ‘

kumb

ہریدوار میں جوبینڈوالے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ان میں سے بہت سے سہارنپور ، مظفر نگر ، رورکی ، دہرادون اور میرٹھ سے آئے ہیں۔ وہ یہاں آنے سے چھ ماہ پہلےسے اس کی پرکٹس کرتے ہیں۔ ساتویں جماعت تک تعلیم یافتہ بینڈماسٹر محمد وکیل بینڈباجوں پر اپنے ساتھی گلوکاروں جاوید خان ، نیمچند اور صفدر کے ساتھ ، ہر ہر مہادیو اور رامنامی دھنوں پر کئی گھنٹوں سے ریاض کررہے ہیں تاکہ اس پروگرام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ مہاراشٹر ، پنجاب ، سہارنپور ، الہ آباد ، دہرادون ، ہاپور کی مختلف بینڈ ٹیمیں یہاں بڑے جوش و خروش کے ساتھ پروگراموں میں حصہ لے رہی ہیں۔

مہاکبھ میں باہمی اخوت کے کئی مناظر نظر آرہے ہیں۔بینڈ باجوں کے علاوہ صبح اور شام گنگا آرتی ہوتی ہے،پیشوائی کی جاتی ہے اور جگہ جگہ بھکتوں کی ٹولیاں ہیں جن کی مدد کے لئے مسلمان بھی دکھائی دیتے ہیں۔رتھوں کو سجانے والوں میں بھی مسلمان ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مسجدوں اور مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی سادھوں کے استقبال کئے جارہے ہیں۔ مسلم فنکاروں کو فخر ہے کہ وہ اپنے روایتی پیشے سے مذہبی دوری کو ختم کرکے ملک کی خدمت کررہے ہیں۔

ہریدوارکنبھ میلے میں قومی یکجہتی کی مثال تنہامسلم بینڈ ہی نہیں ہے بلکہ یہاں لائٹ کا انتظام کرنے والوں میں کئی مسلمان ہیں۔ مظفرنگرکے محمد محمودلائٹنگ کا کام دیکھ چکے ہیں۔ دھرمنگری میں کمبھ کے بہت سے رنگ نظر آتے ہیں۔ جن میں گنگاجمنی تہذیب کا رنگ سب سے نمایاں ہوتاہے۔سادھووں کے اکھاڑوں کا استقبال مقامی مسلمانوں کی جانب سے بھی کیاجاتاہے۔اس بار بھی مسلمانوں کی جانب سے ناگا سنیاسیوں اور سنتوں کا شاندار استقبال کیاگیا۔ ان پر پھولوں کی بارش کی اور ہاروغیرہ پہنائے۔واضح ہوکہ ہریدوار میں ان دنوں سادھو سنت بڑی تعداد میں جمع ہیں۔

گزشتہ دنوں جونا اکھاڑے کا جلوس نکلاتھااس کے بعد مخنثوں کے اکھاڑے کا جلوس بھی اشنان کے لئے آیا۔عام لوگوں کو سادھوں کے ساتھ سیلفی کھنچواتے دیکھاگیاجن میں مسلمان بھی شامل ہیں۔